تحریر: حافظ وصی محمد خاں
پاکستان کو دودھ پیدا کرنے والے پانچ بڑے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک عام پاکستانی کو اگر خالص دودھ میسر نہ ہو تو اس کو کیا سروکار کہ پاکستان کا کون سا نمبر ہے۔ پاکستان میں تاریخی طور پر جانوروں سے حاصل ہونے والے دودھ کی تقسیم کچھ اس طرح ہے کہ سردیوں میں دودھ خریدنے والا نہیں ملتا اور گرمیوں میں دودھ بیچنے والا نہیں ملتا اور یہی وجہ ہے کہ طلب ورسد میں زمین آسمان کا فرق ہو جائے تو دودھ کی قیمتیں بھی بڑھتی ہیں اور ملاوٹ کے تمام اخلاقی ریکارڈ بھی توڑ دیئے جاتے ہیں۔ گرمیوں میں دودھ لینے والا تو زیادہ رقم دے کر یہ سمجھتا ہے کہ خالص دودھ پی رہا ہے لیکن یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ودھ میں ملاوٹ کرنے والے فنکاروں نے کون کون سے ضرر رساں اجزا ملا کر فروخت کیا ہے۔ گرمیوں میں دودھ کی کمی کی سب سے بڑی وجہ ایک طرف برسیم کا چارہ ختم ہونے کے بعد چارے کا نہ ہونا ہے اور دوسری جانب درجہ حرارت کی زیادتی کی وجہ سے جانوروں کے جسم اور جانوروں کی پیداواری صلاحیت کا متاثر ہونا ہے۔ اگر مویشی پال حضرات ان دونوں مسائل کا حل اپنے حالات کے مطابق ڈھونڈ نکالیں تو جانوروں کی نہ صرف پیداواری صلاحیت بہتر ہو گی بلکہ وہ صحت پر پڑنے والے اثرات سے بھی محفوظ رہیں گے۔ صلاحیت اور صحت پر پڑنے والے برے اثرات سے جانور بھی محفوظ رہ سکتا ہے اور اس کی پیداواری صلاحیت بھی متاثر نہ ہو گی۔
گرمیوں میں برسیم کے بعد جانوروں کو چارہ کی عدم فراہمی کا بہترین علاج چارہ کی بہتر منصوبہ بندی خشک چارہ اور سائیلیج (اچارے کا اچار) کے حصول کی تیاری ہے۔ خشک چارہ اور سائیلیج تیار کرنا ایسی ٹیکنالوجی نہیں جو پاکستان میں نہ مل سکتی ہو۔ تھوڑی سی تگ ودو کے بعد کسان اپنے جانوروں کو سارا سال یکساں قسم کی خواراک مہیا کر سکتا ہے اور یہ یکساں قسم کی خوراک فراہم کرنا جانوروں کی صحت اور پیداوار کی ضمانت ہے۔ جہاں پر کم وسائل والے مویشی پال ہوں وہ اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لاتے ہوئے اشتراکی عمل کو فروغ دے کر سائیلیج کی پیداوار کا اجتماعی حل ڈھونڈ سکتے ہیں۔
دوسرا بڑا مسئلہ گرمیوں کے موسم میں جانور پر سخت گرمی اور حبس کے اثرات سے بچانا ہے۔
سخت گرمی اور حبس کے دبائو کا مطلب:
اس دبائو کا معروف معنوں میں مطلب یہ ہے کہ جب جانور کے جسم پر موسم کی شدت ان کے برداشت کرنے کی شدت سے زیادہ ہو جائے تو اس دبائو کو گرمی کا دبائو کہا جا تا ہے۔
گرمی کے دبائو کے اہم ترین عوامل
٭ ہوا کا درجہ حرارت
٭ ہو امیں موجود نمی کا تناسب
سورج کے شعائوں کی شدت اور گرم ہوائوں کی رفتار:
جب ہوا کا ٹمپریچر 23 ڈگری سے زیادہ اور ہوا میں نمی کا تناسب 8 ڈگری سے زیادہ وتو یہ دودھ دینے والے جانوروں کی پیداواری صلاحیت پر معکوس اثر ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ ہو امیں زیادہ نمی کا تناسب جانوروں کی حرارت برقرار رکھنے یا سانس لینے کے عمل کو متاثر کرتا ہے۔ الحمد للہ ہمارے پاس 65 ملین بڑے جانوروں میں جس میں دودھ دینے والی بھینسیں اور گائیں برابر تعداد میں شامل ہیں اگر ان تمام جانوروں کو موسم کی شدت اور چارے کی کمی سے گرمی میں محفوظ رکھا جائے تو گرمیوں میں بھی دودھ اسی طرح وافر مقدار میں ملے گا جس طرح سردیوں میں ملتا ہے مویشی پال حضرات اپنے جانوروں کی اور ملکی مفاد میں درج ذیل نکات پر غور کر کے عمل فرمائیں تو ایسا کرنے میں وہ خود بھی خوشحال ہوں گے اور ملک کے باسیوں کو بھی خالص اور تازہ دودھ میسر آسکے گا۔
الحمد للہ ہماری بھینسیں پانی میں رہنا زیادہ پسند کرتی ہیں اور اگر جانوروں کو ایسے تالاب کی سہولت میسر ہو جہاں جانور اپنی مرضی کے مطابق رہ سکیں تو بھینسوں پر گرمی کے اثر کو کافی حد تک زائل کیا جا سکتا ہے۔ راقم الحروف نے ایسے فارم بھی دیکھے ہیں جہاں اس سہولت کے میسر ہونے پر جانور صرف کھانے اور سونے کے وقت تالاب سے باہر نکلتا ہے اور ماحول کا ٹمپریچر خودبخود ان کے پانی میں جانے اور پانی سے نکالنے کے عمل کو کنٹرول کرتا ہے۔
گرمی کے دبائو کے اثرات:
زیادہ دودھ دینے والے جانوروں پر گرمی کا زیادہ اثرہوتا ہے۔ کمزور اور بیماری سے متاثر جانوروں پر بھی اس کا اثر زیادہ ہو گا۔ اس دبائو کے نتائج کا ہر جانور پر اس کے مزاج کے مطابق اثر ہوتا ہے۔ یہی حال جانوروں کی مختلف نسلوں پر منحصر ہے۔ کسی میں زیادہ کسی میں کم۔ گائے فریزین جرسی کے قابلے میں زیادہ اثر قبول کرتی ہے اور جرسی ساہیوال کے مقابلے میں زیادہ اثر قبول کرتی ہے۔ کسان پر منحصر ہے کہ وہ ہر نسل کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے گرمی کے دبائو سے محفوظ رکھے۔
گرمی کے موسمی دبائو کی علامات:
جب گرمی کا دبائو جانور کی قوتِ برداشت سے زیادہ ہو جائے تو درج ذیل علامات ظاہر ہوتی ہیں:
1 ۔ سانس تیز ہو جانا
2۔ جانور میں پانی کی طلب کا زیادہ ہو جانا
3۔ پسینہ زیادہ آنا
4۔ جسم میں پانی کی کمی ہو جانا
5۔ خوراک کی طلب کم اور تمام باتوں کے نتیجے میں دودھ بھی کم ہو جانا
اس کے نتیجے میں ایک اچھا مویشی پال گرمی کے دبائو کی موجودگی کو مزید ان علامات سے نوٹ کر سکتا ہے:
1۔ جانور کسی سائے کی تلاش کرتا ہے
2۔ زبان باہر نکالتا ہے
3۔ جانور اکٹھے رہنا پسند کرتے ہیں
4۔ کھڑا رہنا بیٹھنے سے بہتر سمجھتے ہیں
5۔ اگر پانی مہیا ہو تو بھینس پانی میں بیٹھناپسند کرے گی اور گائے کھڑا ہونا پسند کرے گی اور جانور پانی کے قریب قریب نظر آئیں گے۔
اگر مویشی پال بے خبر ہیں تو جانور پر گرمی کے برے اثرات کو کوئی نہیں روک سکتا اور اس کے نتیجے میں جانوروں کا ٹمپریچر بڑھنا شروع ہو جائے گا اور جانور کے نارمل ٹمپریچر سے پانچ یونٹ ٹمپریچر بڑھنے سے جانوروں کے دودھ کی پیداوار 2 لٹر تک کی کمی ہو سکتی ہے۔
جانوروں کو گرمی کے دبائو سے کیسے محفوظ رکھیں؟
مویشی پال حضرات ان اثرات کا تدارک کیسے کریں؟
٭ صاف ستھرے تازہ پانی تک جانوروں کی پہنچ کو یقینی بنانا۔ اس قسم کے حالات میں دودھ دینے والے جانور 120 لیٹر یومیہ پی سکتا ہے۔
٭ غذا میں ریشے والی خواراک کی فراہمی زیادہ کی جائے اور ونڈا کو شام کے وقت دیا جائے جب ٹمپریچر کم ہو تاکہ جانور کا نظامِ انہضام متاثر نہ ہو۔
٭ جانوروں کے باڑے میں درخت جھنڈ کی شکل میں لگے ہوں تاکہ چاروں طرف سے سائے کو یقینی بنایا جا سکے۔ جن جانوروں پر کسی بیماری ، نسل یا کسی اور وجہ سے گرمی کی شدت کا احساس زیادہ نمایاں ہو تو ان کو علیحدہ رکھا جائے اور اصل وجہ کو سامنے رکھ کر خصوصی بندوبست کیا جائے
٭ دودھ دوہنے کا وقت کم ٹمپریچر کا وقت تریب دیا جائے۔ جو مویشی پال پنکھے اور اور کولنگ کا بندوبست کر سکتے ہوں تو ضرور کریں تاکہ جانوروں کے ارد گرد کا محول قابل برداشت ہو سکے پسینے کی وجہ سے نمکیات پسینے اور سانس کے تیز اخراج کی وجہ سے نمکیات کی کمی کو دور کرنے کے کھرلی میں نمک کی ڈلی رکھی جائے ۔
No comments: